کیا میرے جواں لعل کے مر جانے کے دن تھے۔۔۔

پیاسے کو مار کر بھی نہ ظالم نے دم لیا

سر اِس کا میرے سامنے اُس نے قلعم کیا

آرام تھوڑی دیر بھی پایا نہ خاک پر

ہائے پھر سے شروع ہو گیا اِس لعل کا سفر

بازار میں کب چاند سا سر جانے کے دن تھے

تھی جو ہمارے گھر میں نشانی رسول کی

زینبؑ ردا میں اپنی جسے پالتی رہی

آٹھ اُٹھ کے جسکو چومتے رہتے تھے رات بھر

شبیرؑ جی رہے تھے جسے دیکھ دیکھ کر

اُس چہرے کے کیا خاک میں بھر جانے کے دن تھے

 

لگ جائے نہ نظر میرے یوسف جمال کو

دیکھا نظر نہ بھر کے کبھی اپنے لعل کو

ہے گیسووں میں خاک کوئی صاف تو کرو

زینبؑ کی میں کنیز ہوں انصاف تو کرو

برچھی کہاں وہ دل میں اُتر جانے کے دن تھے

 

آیا یہ جب جہان میں پھوپھی نے خوشی خوشی

آزاد اِک کنیز تھی کی شیریں نام کی

اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا نہ فکر کر

بارات لے کے آوں گی اِسکی میں تیرے گھر

پہنچا وہاں نہ اُسکے جدھر جانے کے دن تھے

 

وعدہ کیا تھا سر پہ جو سہرہ سجاوں گا

گھبرا نہ صغراؑ میں تجھے لینے کو آوں گا

دہلیز پر ہے بیٹھی تکلم وہ غمگسار

چھ ماہ سے ہے اُسکو برادر کا انتظار

پردیس سے یہ لوٹ کے گھر جانے کے دن تھے

نازک بدن پہ زخم نہ آنے دیا کبھی

میں نے نہ اُ سکو دھوپ میں جانے دیا کبھی

نیزے پہ سرہے آج بدن جلتی ریت پر

پردیس میں یہ آ کر نہیں تھی مجھے خبر

محنت کی کمائی یوں بکھر جانے کے دن تھے

 

میر تکلم میر

Share in
Tagged in