بھائی بھائی پکارتی رہی میں

اماں رکا نہ شمرِ لعین میرے بین سے

ستر قدم تھی دور یہ زینبؑ حسینؑ سے

 

 

تم جو زلفیں سنوارا کرتی تھی،

اُنھیں زلفوں میں ہاتھ تھا اُسکا،

جہاں بوسے لئے تھے نانا نے،

اُسی گردن سے خوں ٹپکتا تھا،

سرِ شبیر یوں اُٹھائے ہوئے،

شمر خیمے تک آ گیا اماں،

 

بھائی بھائی پکارتی رہی میں

پھر بھی خنجر نہیں رکا اماں،

شمر نے کی پھر ایسی گستاخی۔۔۔۲

مجھ سے دیکھا نہیں گیا اماں،

چاروں جانب سے گھیر رکھا تھا

تیرے نورِ نظر کو لشکر نے

تیر برساتا تھا کوئی اُس پر

کوئی پتھر سے مارتا تھا اُسے

ریت زخموں پہ وہ گراتا رہا

جسکو پتھر نہیں ملا اماں

 

دیکھ کر مجھکو بین کرتے ہوئے

شمر ہر بار مسکراتا رہا،

میری نطروں کے سامنے ظالم

وار گن کر چھری چلاتا رہا

تیرہ ضربیں تھیں کُند خنجر تھا

اور شبیرؑ کا گلا اماں

 

جب چلایا تھا شمر نے خنجر

میں نے آنکھوں سے اپنی دیکھا تھا

ہاتھ اپنے اُٹھا کے پہلو سے

تو نے سوکھے گلے پہ رکھا تھا

اُنگلیاں زخمی ہو گئی ہوں گی

ہاتھ مجھ سے تو نہ چھپا اماں

 

تیغ جس دم کوئی چلی اُس پر

ہائے عباس کہہ کے رویا تھا

تیر پیشانی پہ لگا جس دم

ہائے اصغرؑ زباں پہ آیا تھا

ہائے اکبرؑ پکارا بھیا نے

جب بھی نیزہ کوئی لگا اماں

 

ماں یہ زینبؑ سے کہتی تھی اکبر

میری آغوش میں تھا سر اُسکا

میں نے گردن کو کٹتے دیکھا تھا

میں نے سانسوں کو رکتے دیکھا تھا

آخری بار زیرِ خنجر ہی

میں نے شبیرؑ سے سنا اماں

 

ایسی نفرت تھی اُنکے سینوں میں

یہ بھی سوچا نہ شام والوں نے

دینِ اسلام میں ذبیحہ تک

ذبح پیاسے نہیں کئے جاتے

تین دن سے حسینؑ پیاسا ہے

یہ بھی سوچا نہیں گیا اماں

 

حسنین اکبر

Share in
Tagged in