ذوالجناح   ۔   ذوالجناح

اہل عزا سے کہتا ہے آ کر یہ زوالجناح

لوگو کہیں پہ دیکھا ہے زہراؑ کے چین کو

بچھڑا ہے جب سے ڈھونڈ رہا ہوں میں آج تک

ہر ماتمی جلوس میں مولا حسینؑ کو

 

سیدانیاں تڑپتی تھی محشر کی تھی گھڑی

ہے یاد مجھکو آخری رخصت حسینؑ کی

زینبؑ نے مجھکو سونپا تھا

بیٹا بتول کا

آتی ہے اُسکے خون کی خوشبو جو بار بار

محسوس ہو رہا ہے یہیں ہے میرا سوار

آیا ہے کیا جلوس میں

مظلوم کربلا

 

پیاسے کا میرے زین پہ سنبھلنا محال تھا

برچھی جگر میں تیر بدن میں یہ حال تھا

اُترا تھا اک نشیب میں

زہراؑ کا لاڈلا

دیکھا جو میں نے پیاسے کی آنکھوں میں انتظار

قدموں کو چوم چوم کے کہتا تھا بار بار

صغراؑ کے پاس لے چلوں

گر حکم ہو تیراؑ

 

ذخموں سے بے وطن کے بہا خون اس قدر

میری جبیں پہ بام پہ ،زین پر، رقاب پر

مظلوم کربلا کا

لہو ہے لگا ہوا

مدت سے ہے تلاش غریبُد دیار کی،

پہچان ایک یہ بھی ہے میرے سوار کی،

چہرے پہ خون اصغرؑ

بے شیر ہے ملا

 

گردن ہے اُسکی یوں بھی تکلم جھکی ہوئی

اپنا سوار ڈھونڈ رہا ہے یہ آج بھی

بچھڑا ہے یوں حسینؑ سے

اب تک نہیں ملا

ذوالجناح   ذوالجناح

میر تکلم میر

Share in
Tagged in