یہ کربلا ہے، یہ کربلا ہے

جہانِ صبر و رضا یہی ہے،ولاِ صبر و رضا یہی ہے

یہاں پہ آتے ہیں چل کے مہدیؑ

بہشت زہراؑ یہ سر زمین ہے

یہاں ہے زہرا کا آنا جانا

یہاں سنبھل کر قدم اُٹھانا

یہ کربلا ہے، یہ کربلا ہے۔۔۔۲

یہ بات ہر گز نہ بھول جانا

یہ کربلا ہے، یہ کربلا ہے

 

یہاں پہ گزری ہے وہ قیامت، ملا نہ اُسکو سکون اب تک

ردائیں چھننے کے غم میں عابدؑ، لحد میں خون روتا ہے اب تک،

یہاں پہ ہر گز نہ مسکرانا

دعائیں دیں گے حسینؑ تم کو، یہاں پہ آنسو اگر بہائے

جہاں پہ بیٹی نے بے وطن کی، ستمگروں سے تماچے کھائے،

یہاں پہ خوشیوں کو بھول جانا

 

کہیں پہ قاسمؑ ہوئے ہیں ٹکڑے، کہیں پہ زیں سے گرے تھے

مولاؑ،

کہیں سکینہؑ سموں سے لپٹی، کہیں پہ اصغرؑ نے تیر کھایا

یہیں غریبی کا ہے ٹھکانا

یہاں پہ حرؑ بھی تھا ہرملا بھی، کتاب ہستی کو پڑھ کے دیکھو،

صدا یہ ھل من کی آ رہی ہے، تم اِس طرف ہو یا اُس طرف ہو،

تمہیں عمل سے ہے اب بتانا

 

کسی کے دل میں لگی ہے برچھی، کسی کے بازو کٹے یہں پر

علیؑ کی بیٹی کے کتنے یوسف، لہو میں ڈوبے ہیں اِس زمین پر

لٹا ہے سادات کا گھرانا

سواری آئے گی اِک وہاں سے، نجف کی جانب نگاہ رکھنا

جب آئے شامِ غریباں اُس دم، علیؑ کو زینبؑ کا پرسہ دینا

تم آنسووں کے دیئے جلانا

 

رہے کہیں بھی جہاں میں جا کر، حسینؑ والے یہ جانتے ہیں

ہم اہلِ ماتم کے دل تکلم ، یہاں کی مٹی سے ہی بنے ہیں

یہاں ہے واپس پلٹ کے آنا

میر تکلم

Share in
Tagged in