[vc_row][vc_column width=”5/6″ offset=”vc_col-lg-offset-1″][vc_custom_heading text=”اب مجھے کوئی سکینہؑ نہیں کہتا باباؑ
قیدی کہتا ہے کوئی، کوئی یتیمہ باباؑ
” font_container=”tag:h2|text_align:center”][vc_empty_space height=”22px”][vc_column_text el_class=”.urdu”]
نیل رُخساروں پہ بینائی بھی جس کی کم ہو
عمر ہو چار برس اور کمر میں خم ہو آپ نے دیکھی ہے کیا ایسی ٖضعیفہ باباؑ |
میں بیاں کیسے کروں اپنی مصیبت تم سے
کیا کروں اپنے طمانچوں کی شکایت تم سے سُنتی ہوں دادی نے کھایا تھا طمانچہ باباؑ
|
آپ تھے دور تو میں سارے ستم سہتی رہی
رو پڑی کوفے کرے دربار مِیں میں سہہ نہ سکی آپ کے سامنے جب شمر نے مارا باباؑ |
خونِ بے شیرؑ سے اندازہ کیا تھا میں نے
آپ کا چہرہ تو پہچان لیا تھا میں نے آپ پہچانوں گے کیسے میرا چہرہ باباؑ
|
میری آنکھوں سے بہے جاتے تھے آنسو اُس دم
ہاتھ بھی میں نے لگایا نہیں دادی کی قسم دینا چاہا تھا مجھے لوگوں نے صدقہ باباؑ |
وہ تو بیمار تھی مر جاتی سفرمیں آکے
دفن کرتے اُسے بازار میں بھیا کیسے یہ تو اچھا ہوا آئی نہیں صغراؑ باباؑ
|
بین یہ کرتے ہی خاموش ہوئی وہ اکبرؔ
آج تو جائیں گے ساتھ اپنے مجھے بھی لے کر آپ کو میری قسم کیجئے وعدہ باباؑ |
اُس گھڑی ڈھونڈ رہی تھی میں چچا جان کا سر
کیسے بتلاؤں کے کیا گُزری تیری بیٹی پر ہائے مجھ کو ظالم نے کنیزی میں جو مارا باباؑ
|
(حسنین اکبرؔ)
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]
Leave a Reply
Comments powered by Disqus