جب بھی ہو کربوبلا آپکا جانا بھیا

آخری بارمیرا حال مصیبت سن لو

بھائی سجادؑ سکینہؑ کی وصیت سن لو

جب بھی ہو کربوبلا آپکا جانا بھیا۔۔۔۔۲

میری روداد چچا جان کو سنانا بھیا

جب بھی ہو کربوبلا

 

قید خانے سے ہی منسوب ہے اب ذات میری

ہو گا احسان نبھا دو گے اگر بات میری

چین سے قبر میں کٹ جائے گی رات میری

جیتے جی اُن سے نہ ہو پائی ملا قات میری

سر چچا جاں کا میری قبر پہ لانا بھیا

جب حرم قید ہوئے میں نے چچا کو ڈھونڈا

جب بندھے بارہ گلے میں نے چچا کو ڈھونڈا

جب گوہر میرے چھنے میں نے چچا کو ڈھونڈا

جب مجھے دُررے لگے میں نے چچا کو ڈھونڈا

وہ اگر ہوتے ستاتا نہ زمانہ بھیا

 

کربلا جائو تو ایسا نہیں ہونے دینا

اُنکو تنہائی کا صدمہ نہیں ہونے دینا

میرے امو کو اکیلا نہیں ہونے دینا

قبر غازیؑ پہ اندھیرانہیں ہونے دینا

اک دیا میری طرف سے بھی جلانا بھیا

وہ اگر پوچھے میرا حال چچا سے کہنا

میری نیندیں ہوئی پامال چچا سے کہنا

تازیانوں کا سب احوال چچا سے کہنا

اب بھی نیلے ہیں میرے گال چچا سے کہنا

جو ستم مجھ پہ ہوئے سارے بتانا بھی

 

میرے احساس غریبی سے بچانا اُنکو

یاد وہ وقت مصیبت نہ دلانا اُنکو

میرا احوال کنیزی نہ سنانا اُنکو

ہاشمی شیر ہے مت یاد دلانا اُنکو

میں نہیں چاہتی۔۔۔

میں نہیں چاہتی پھرحشر اُٹھانا بھیا

پائوں جلتے تھے میرے ہوتی تھی ایزا مجھکو

چھائوں میں بیٹھنے دیتے نا تھے عادا مجھکو

جب بھی چلتے ہوئے غش دھوپ میں آیا مجھکو

اُونٹ کی پشت سے جلاد نے باندھا مجھکو

میں بہت روئی۔۔

میں بہت روئی مگر شمر نہ مانا بھیا

 

 

سن کے عارف یہ وصیت تھی قیامت برپا

لاش عباسؑ تڑپتی تھی سر کربوبلا

اور سجادؑ کی آنکھوں سے لہو جاری تھا

جس گھڑی بالی سکینہؑ نے یہ آہستہ کہا

میری میت کو اندھیرے میں اُٹھانا بھیا

بھیا ۔۔۔۔بھیا۔۔۔ بھیا۔۔۔۔۲

 

قید سے چھوٹکے جب کربوبلا جائو گے

پہلے تو کرنا سلام اُنکو میری جانب سے

پھر بتانا کے یہ دن کیسے گزارے میں نے

اور جب پھول چڑھانے لگو اُس تربت پہ

میری جانب سے ردا میری اُوڑھانا بھیا

عارف ۔ انڈیا

Share in
Tagged in