تیری اُمت نے میرے دَر کو جلایا باباﷺ
پھر وہ جلتا ہوا دَر مجھ پے گِرایا باباﷺ

لوٹ کر آئی تو چہرہ بھی میرا زخمی تھا

میری زینبؑ کو میری پیشی کا پہلا نوحہ

میرے بالوں کی سفیدی نے سُنایا باباﷺ

ریکھ تھی شعلے تھے سہمے ہوئے بچے یا دھواں

میرے آنگن میں تھا اِک شامِ غریباں کا سماں

در ہٹا کر مجھے فضہؑ نے اُٹھایا باباﷺ

 

بیٹھ کر پڑھتی ہوں مُشکل سے نمازِ شب بھی

پھر بھی عباسؑ کی خلقت کی دُعا بھولی نہیں

جب بھی زخمی ہوئےہاتھوں کو اُٹھایا باباﷺ

لے چلے قیدی بنا کر جو علیؑ کو دُشمن

میں نے چھوڑا نہیں حیدرؑ کی عبا کا دامن

تازیانوں نے مگر مجھ سے چھوڑایا باباﷺ

 

کون سا در ہے جہاں آپ کی بیٹی نہ گئی

ارے بات سُننا تو کُجا یوں ہوئی عزت میری

کوئی دروازے سے باہر نہیں آیا باباﷺ

زخمی حالت میں بھی دہلیز سے باہر آئی

پر علی ولی الله بچا کر لائی

عہد جو میں نے کیا تھا وہ نبھایا باباﷺ

 

جس جگہ آپ نے رُک رُک کے اجازت مانگی

وہاں گستاخ مسلمانوں نے بیعت مانگی

ارے کوئی شعلے تو کوئی لکڑیاں لایا باباﷺ

خود یہ دیکھا ہے تیرے شہر کی دیواروں نے

کیسی غربت تھی کے ہاتھوں میں ستم داروں نے

رسیاں باندھ کے حیدرؑ کو پھرایا باباﷺ

 

عرش اور فرش پہ محسنؔ ہوا کہرام بپا

جس گھڑی رو کو وِلایت کی شہیدہ نے کہا

مجھ کو ہنس ہنس کو زمانے نے رُلایا باباﷺ

 

(محسنؔ جعفری)

Share in
Tagged in