اے میرے بھائی رضاؑ
اے غریبُ الغرباء
اے میرے بھائی رضاؑ
روکے معصومہ قمؑ
قم سے دیتی ہیں صدا
اے میرے بھائی رضا

دیکھنےآئی ہوں میں قم سو صورت تیری

اے غریبُ الغرباء دیکھ غربت میری

کوئی بتلاتانہیں مجھکو مشہد کا پتا

تیرا دیدار نہیں بھائی قسمت میں میری

دے ہواؤں کو زرا حکم اے میرےعلیؑ

سُن لو آواز تیری دل بہل جائے میرا

جب سے پہنچی ہوں میں قُم دِل ہیں قابو میں کہا

غمزدہ آئی نظر آئے نظر شہر کے پِیر و جواں

دیکھ کر کالے علم دل دہلتا ہیں میرا

مجھ پے جو بَیت گئی وہ عالم کچھ بھی نہیں

سامنے زینبؑ کے میرے غم کچھ بھی نہیں

میں نہ بازار گئی نہ چھینی میری رِدا

کس جگہ کانٹے چُبھے کس جگہ تھک کے گری

پوچھوں چھالوں سے زرا کیسے میلوں میں چلی

زخم پیروں کے تمھیں غم سنائے گے میرا

ہوں یتیماں لیکن وہ یتیماں تو نہیں

قیدی باباؑ کی قسم میں سکینہؑ تو نہیں

جس کے گُوہر بھی چھینے ہائے جس کا دامن بھی جلا

قم سے مشہد جو گیا زائرِمولا رضاؑ

اے تکلمؔ وہ یہی لے کے پیغام چلا

راستہ تیری بہن اب بھی تکتی ہیں تیرا

ساتھ جائے گا میرے یہ غمِ تنہائی

تم بھی اکبرؑ کی طرح نہیں لوٹے بھائی

روز صغریٰؑ کی طرح میں جلاتی ہوں دیا

(میر تکلمؔ میر)

Share in
Tagged in