رو رہی ہیں سوچ کر اُم البنیںؑ یہ آج بھی
اصغرِبے شیر جیسی قبر ہے عباسؑ کی

مر کے بھی اُس نے نبھایا مجھ سے جو وعدہ کیا

اپنے بیٹے کی وفا پر فخر ہے مجھ کو بڑا

اب نہیں اصغرؑ کی ماں سے کچھ مجھے شرمندگی

رشک کرتی تھی میں عکسِ حیدرِؑ کرار پر

پاؤں خط دیتے تھے اُسکے بیٹھ کر رہوار پر

ہائے میرے شیرؑ کی یہ کیسی حالت ہوگئی

 

کون لڑؑسکتا تھا اُس سے کس میں تھا اِتنا جگر

سُنتی ہوں نو لاکھ نے مارا ہے اس کو گھیر کر

لاش بھی اُس کی سلامت دشت میں رہنے نہ دی

باپ کے بدلے مسلمانوں نے بیٹے سے لیے

سر جُدا ہے تن جُدا بازو جُدا ہیں شیر کے

آپ کی تصویر ٹکڑے ہوگئی ہے یاعلیؑ

 

کب سماتا تھا میری چادرمیں تُو اے میرے لال

کردیا ہے ظالموں نے یہ تیرے لاشے کا حال

ہے میرے سر کی ردابھی تیری تُربت سے بڑی

کیا قدوقامت تھی اُسکی یہ اُسے معلوم تھا

ایک گٹھڑی میں سمٹ کر کیسے قاسمؑ آگیا

اُمِ فرواؑ جانتی ہے کیا ہے میری بے کسی

 

رو کہ کرتی ہے سلام اُن کو تکلمؔ کربلا

فاطمہ زہرہؑ سے ماں بیٹے نے کی ایسے وفا

مادِر عباسؑ کی تُربت بھی ہے ٹوٹی ہوئی

کہہ کے یاعباسؑ کرتا ہے وہ اشکوں سے وضو

ڈرتی ہوں جاری نہ ہوپھر اُسکی آنکھوں سے لہو

سامنے عابدؑ کے یوں کہتی نہیں ہوں میں کبھی

 

(میر تکلمؔ میر)

Share in
Tagged in